Registration Open (2019-20) Alim Course Alimah Course Nazrah Qur'an Course Hifze Qur'an CourseTafseerul Qur'an CourseArabic Learning Course

Signs Of The Fitnah Period

فتنے کے دور کی نشانیاں

(حصہ اول)

حضور اقدس  ﷺ کی تعلیمات کے سلسلے میں آج ایک ایسے موضوع پر مختصرا عرض کرنا چاہتا ہوں جس کی آج ضرورت بھی ہے، اور آپ  ﷺ کے ارشادات اور تعلیمات کا یہ پہلو بہت کم بیان کیا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس  ﷺ کو اس دنیا میں خاتم النبیین بنا کر مبعوث فرمایا۔ آپ  ﷺ پر نبوت کے سلسلے کی تکمیل فرمائی۔اور آپ  ﷺ کو دوسرے انبیاء پر یہ امتیاز عطا فرمایا کہ پہلے جو انبیاء تشریف لاتے تھے، وہ عموماکسی خاص قوم کے لیے، خاص جگہ کے لیے اور خاص زمانے کے لیے ہوتے تھے۔ان کی تعلیمات اور دعوت ایک خاص علاقے اور خاص زمانے تک محدود ہوتی تھی۔ مثلا حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر کے علاقے میں بنی اسرائیل کی طرف مبعوث فرائے گئے۔ اسی قوم اوراسی علاقے تک آپ کی نبوت و رسالت محدود تھی۔لیکن حضور  ﷺ  کو اللہ تعالیٰ نے کسی خاص قوم، کسی خاص قبیلے اور کسی خاص جگہ کے لیے نبی نہیں بنایا تھا، بلکہ پوری دنیا، پوری انسانیت اور قیامِ قیامت تک تمام زمانوں کے لیے نبی بنایا تھا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:      

"اے نبی (ﷺ) ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے"

تمام انسانوں سے مراد یہ ہے کہ وہ جہاں بھی بسنے والے ہوں اور جس زمانے میں بھی آنے والے ہوں، ان سب کی طرف آپ کو بھیجا۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ کی رسالت صرف عرب تک مخصوص نہیں، اور صرف کسی زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں۔بلکہ قیامِ قیامت تک جتنے آنے والے زمانے ہیں، ان سب کے لیے آپ کو رسول بنایا۔

آئندہ پیش آنے والے حالات کی اطلاع        اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ آپ کی تعلیمات اور آپ  ﷺ کے بتائے ہوئے احکام قیامت تک نافذ العمل ہیں۔کسی زمانے کے ساتھ آپ کی تعلیمات مخصوص نہیں۔اسی لیے حضور اقدس  ﷺ نے ہمیں جو تعلیمات عطا فرمائیں وہ زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہیں۔ پھر ان تعلیمات کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو میں تو شریعت کا بیان ہے کہ فلاں  چیز حلال ہے اور فلاں چیز حرام ہے، یہ کام جائز ہے اور یہ کام ناجائز ہے۔ فلاں عمل واجب ہے ، فلاں عمل مسنون ہے اور فلاں عمل مستحب ہے وغیرہ۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ آئندہ آنے والے زمانوں میں امت کے سامنے کیا کیا حالات آنے والے ہیں، اور امت کو کن کن مسائل سے دوچار ہونا ہے اور ان حالات میں امت کو کیا کرنا چاہیے؟

یہ دوسرا پہلو بھی آنحضرت ﷺ کی تعلیمات کا بہت اہم حصہ ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے نگاہِ نبوت سے آئندہ پیش آنے والے اہم واقعات کو دیکھنے کے بعد امت کو خبر دی کہ آئندہ زمانے میں یہ واقعہ پیش آنے والا ہے اور یہ حالات پیش آنے والے ہیں، اور ساتھ میں آپ ﷺ نے امت کو یہ بھی بتایا کہ جب یہ حالات پیش آئیں تو ایک مؤمن کو اور سیدھے راستے پر چلنے والے کو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے؟  یہی دوسرا پہلو اس مضمون کا موضوع ہے۔

امت کی نجات کی فکر      حضور اقدس ﷺ کو اپنی امت کی ایسی فکر تھی کہ اس فکر کے اندر آپ ﷺ  ہر وقت پریشان رہتے تھے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے:      

))کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم دائم الفکرۃ متواصل الأحزان) ) (الشمائل المحمدیة و الخضائل المصطفویة)

یعنی حضور اقدس ﷺ ہمیشہ فکرمند اور سوچ میں ڈوبے ہوئے  تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہر وقت آپ ﷺ  پر کوئی غم چھایا ہوا ہے۔ وہ کس بات کا غم تھا؟ کیا پیسہ جمع کرنے کا غم تھا؟ یا وہ غم اپنی شان و شوکت کو بڑھانے کا تھا؟ ہرگز نہیں ! بلکہ وہ غم اس بات کا تھا کہ جس قوم کی طرف مجھے بھیجا گیا ہے، میں اس کو کس طرح جہنم کی آگ سے بچاؤں، اور کس طرح ان کو گمراہی سے نکال کر سیدھے راستے پر لے آؤں۔ اس شدید غم میں مبتلا ہونے کی وجہ سے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بار بار آیت نازل فرمائی، جن میں آپ کو اس غم کو کرنے سے روکا گیا۔ فرمایا :

"آپ اپنی جان کو کیوں ہلاک کر رہے ہیں، اس وجہ سے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لا رہے ہیں"

ایک حدیث میں حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ میری مثال اُس شخص جیسی ہے  جس نے آگ سلگائی اور آگ کو دیکھ کر پروانےآگ پر گرنےلگے۔ وہ شخص ان پروانوں کو آگ سے دور رکھنےکی کوشش کر رہا ہےتاکہ وہ اگ میں گر کر جل نہ جائیں۔ اسی طرح میں بھی تمہیں جہنم کی آگ سےبچانےکی کوشش کر رہا ہوں، تمہاری کمریں پکڑ پکر کر تمہیں روک رہا ہوں، مگر تم جہنم کی آگ کے اندر گرےجا رہے ہو۔    (البخاری)

آپ ﷺکو اپنی امت کی اتنی فکر تھی ، اور صرف اسی امت کی فکر نہیں تھی جو آپ ﷺکےزمانے میں موجود تھی، بلکہ آئندہ آنےوالےزمانوں کےلوگوں کی بھی آپﷺ کو فکر تھی۔

آئندہ کیا کیا فتنےآنےوالےہیں؟       چنانچہ آپﷺنے آئندہ آنےوالےلوگوں کو بتایا کہ تمہارےزمانےمیں کیا کیا حالات آنےوالےہیں۔تقریبا    حدیث کی تمام کتابوں میں ایک مستقل باب "ابواب الفتن" کے نام سے موجود ہےجس میں ان احادیث کو جمع کیا گیا ہے جن میں حضورﷺنے آنےوالےفتنوں کےبارےمیں لوگوں کو بتایا اور ان کو خبردار کیا کہ دیکھو! آئندہ زمانےمیں یہ یہ فتنے آنے والے ہیں۔ چنانچہ ایک حدیث میں حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا :

((یقع الفتن فی بیوتکم کوقع المطر))          (البخاری)

یعنی آئندہ زمانےمیں فتنے تمہارےگھروں میں اس طرح گریں گےجیسے بارش کے قطرے گرتےہیں۔ بارش کے قطروں سے اس لیے تشبیہ دی کہ جس طرح بارش کا پانی کثرت سے گرتا ہے، اسی طرح وہ فتنے بھی کثرت سے آئیں گے، دوسرے یہ کہ بارش کا پانی جس طرح مسلسل گرتا ہے کہ ایک قطرےکےبعد دوسرا قطرہ، دوسرےقطرے کے بعد فورا تیسرا قطرہ، اسی طرح وہ فتنے بھی مسلسل اور لگاتار آئیں گے کہ ابھی ایک فتنہ آکر ختم نہیں ہوگا کہ دوسرا فتنہ کھڑا ہو جائےگا، اور یہ فتنےتمہارےگھروں میں آکر رہیں گے

ایک دوسری حدیث میں حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا :

((ستکون فتن کقطع اللیل المظلم))             (کنز العمال)

عنقریب اندھیری رات کی تاریکیوں کی طرح تاریک فتنے ہوں گے۔ یعنی جس طرح تاریک رات میں انسان کو کچھ نظر نہیں آتا کہ کہاں جائے، راستہ کہاں ہے، اسی طرح ان فتنوں کے زمانے میں بھی یہ سمجھ میں نہیں آئےگا کہ انسان کیا کرےاور کیا نہ کرے، اور وہ فتنے تمہارے پورے ماحول اور معاشرے کو گھیر لیں گے، بظاہر تمہیں ان سے کوئی جائے پناہ نظر نہیں آئے گی۔ آپﷺ نے امت کو ان فتنوں سے پناہ مانگنے کی تعلیم بھی فرمائی :

((اللھم انی اعوذبک من الفتن ما ظھر منھا و ما بطن))                    (مسند احمد)

" اے اللہ ! ہم انے والے فتنوں سے آپ کی پناہ چاہتے ہیں، ظاہری فتنوں سے بھی اور باطنی فتنوں سے بھی۔ یہ دعا حضور اقدسﷺکے معمولات کی دعاؤں میں شامل تھی۔

"فتنہ" کے معنی اور مفہوم        اب اس کو سمجھنا چاہیے کہ" فتنہ" کیا چیز ہے؟ فتنہ کس کو کہتےہیں؟ اور اس فتنے کے دور میں ہمارے اور آپ کے لیے حضور اقدسﷺکی تعلیمات کیا ہیں اور اس میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ یہ لفظ تو ہم صبح شام استعمال کرتےہیں کہ فتنوں کا دور ہے۔

"فتنہ" عربی زبان کا لفظ ہے، لغت میں اس کے معنی ہیں "سونے یا چاندی وغیرہ کو آگ پر پگھلاکر اس کا کھرا کھوٹا معلوم کرنا" آگ پر پکاکر اس کی حقیقت سامنےآ جاتی ہے کہ یہ خالص ہے یا نہیں؛ اسی لیے اس لفظ کو امتحان اور آزمائش کے لیے بھی استعمال کیا جانےلگا، چنانچہ "فتنہ" کے دوسرے معنی ہوئے آزمائش، لہذا جب انسان پر کوئی تکلیف ، پریشانی یا مصیبت آئے اور اس کے نتیجے میں انسان کی اندرونی کیفیت کی آزمائش ہو جائے کہ وہ انسان ایسی حالت میں کیا طرزِ عمل اختیار کرتا ہے؛ آیا اس وقت صبر کرتا ہے یا واویلا کرتا ہے، فرمانبردار رہتا ہے یا نافرمان ہو جاتا ہے، اس آزمائش کو بھی "فتنہ" کہتے ہیں۔

حدیث شریف میں "فتنہ" کا لفظ       حدیث شریف میں "فتنہ" کا لفظ جس چیز کے لیے استعمال ہوا ہے وہ یہ ہے کہ کسی بھی وقت کوئی ایسی صورتِ حال پیدا ہو جائےجس میں حق مشتبہ ہو جائے اور حق و باطل میں امتیاز کرنا مشکل ہو جائے، صحیح اور غلط میں امتیاز باقی نہ رہے، یہ پتہ نہ چلےکہ سچ کیا ہےاور جھوٹ  کیا ہے، جب یہ صورتِ حال پیدا ہو جائے تو کہا جائےگا کہ یہ فتنوں کا دور ہے۔ اسی طرح معاشرے کے اندر گناہ، فسق و فجور اور نافرمانیاں عام ہو جائیں تو اس کو بھی فتنہ کہا جاتا ہے، نیز جو چیز حق نہ ہو اس کو حق سمجھنا اور جو چیز دلیلِ ثبوت نہ ہو اس کو دلیلِ ثبوت سمجھ لینا بھی ایک "فتنہ" ہے، جیسے آج کل صورتِ حال یہ ہے کہ اگر کسی سے دین کی بات کہوکہ فلاں کام گناہ ہے، ناجائز ہے یا بدعت ہے تو جواب میں وہ شخص کہتا ہے ارے! یہ کام تو سب کر رہے ہیں، اگر یہ کام گناہ اور ناجائز ہے تو ساری دنیا یہ کام کیوں کر رہی ہے۔ یہ کام تو سعودی عرب میں بھی ہو رہا ہے۔ آج کل یہ ایک نئی مستقل دلیل ایجاد ہو چکی ہے کہ ہم نے یہ کام سعودی عرب میں ہوتے ہوئےدیکھا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کام سعودی عرب میں ہوتا ہو وہ یقینی طور پر حق اور درست ہے۔ یہ بھی ایک "فتنہ" ہے کہ جو چیز حق کی دلیل نہیں تھی اس کو حق سمجھ لیا گیا۔ اسی طرح شہر کے اندر بہت ساری جماعتیں کھڑی ہو گئیں، اور یہ پتہ نہیں چل رہا کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر، کون صحیح کہہ رہا ہے اور کون غلط کہہ رہا ہے، اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنا مشکل ہو گیا، یہ بھی ایک فتنہ ہے۔

دو جماعتوں کی لڑائی فتنہ ہے          اسی طرح جب دو مسلمان یا مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں، اور ایک دوسرے کے خلاف بر سرِ پیکار آ جائیں، ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جائیں اور یہ پتہ چلانا مشکل ہو جائے کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون ہے، تو یہ بھی ایک "فتنہ" ہے۔ ایک حدیث شریف میں آنحضرتﷺنے فرمایا:
(( اذا التقا المسلمان بسیفھما فالقاتل و المقتول کلاھما فی النار))                    (البخاری)
"جب دو مسلمان تلواریں لیکر آپس میں لڑنے لگیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے"۔ ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! قاتل کا جہنم میں جانا تو ٹھیک ہے؛ اس لیے کہ اس نے ایک مسلمان کو قتل کر دیا، لیکن مقتول جہنم میں کیوں جائےگا؟ حضور اقدسﷺنے  جواب میں فرمایا کہ مقتول اس لیے جہنم میں جائےگا کہ وہ بھی اسی ارادے سے ہتھیار لیکر نکلا تھا کہ میں دوسرے کو قتل کر دوں گا۔ اِس کو موقع مل جاتا تو وہ اُس کو قتل کر دیتا۔ لیکن اُس کو موقع مل گیا اس لیے اُس نے قتل کر دیا۔ اُن میں سے کوئی بھی اللہ کے لیے نہیں لڑ رہا تھا، بلکہ دنیا ، دولت اور سیاسی مقاصد کے لیے لڑ رہے تھے، اور دونوں ایک دوسرے کےخون کےپیاسےتھے؛ لہٰذا جہنم میں جائیں گے۔
قتل و غارت گری "فتنہ" ہے       ایک حدیث میں رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا:                         ((ان من ورائکم ایاما یرفع فیھا العلم و یکثر فیھا الھرج قالوا یا رسول اللہ! ما الھرج! قال: القتل  (البخاری)
یعنی لوگوں پر ایک زمانہ آئےگا جس میں "ہرج" بہت زیادہ ہو جائےگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے معلوم کیاٖٖ کہ یہ ہرج کیا چیز ہے؟  آپﷺ نے فرمایا کہ قتل و غارت گری، یعنی اس زمانےمیں قتل و غارت گری بے حد ہو جائے گی اور انسان کی جان مچھر و مکھی سے بھی زیادہ بے حقیقت ہو جائےگی۔ ایک  دوسری حدیث میں حضور اقدسﷺنے ارشاد فرمایا:

((يأتی علی الناس یوم لا یدری القاتل فیم قتل، و لا المقتول فیم قتل، فقیل: کیف یکون ذلک؟ قال: الھرج، القاتل و المقتول فی النار))            (صحیح مسلم)

یعنی لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئےگا جس میں قاتل کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ میں نےکیوں قتل کیا، اور مقتول کو یہ پتہ نہیں ہوگا کہ میں کیوں قتل کیا گیا۔ آج کے موجودہ حالات پر نظر ڈالیں، اور حضور اقدسﷺکےان الفاظ کو پڑہیں، ایسا لگتا ہے کہ آنحضورﷺنے اس زمانےکو دیکھکر یہ الفاظ ارشاد فرمائےتھے۔ پہلےزمانےمیں تو یہ ہوتا تھا کہ یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کس نے  مارا، لیکن یہ معلوم ہو جاتا تھا کہ یہ شخص کیوں مارا گیا، مارے جانے کے اسباب سامنے آجاتےتھے۔ لیکن آج یہ حال ہےکہ ایک شخص ہے، کسی سے نہ کچھ لینا نہ دینا، نہ کسی سیاسی جماعت سےتعلق، نہ کسی سے کوئی جھگڑا، بس بیٹھےبٹھائےمارا گیا۔ یہ تمام باتیں حضور اقدسﷺصاف صاف بتا گئے۔
مکہ مکرمہ کے بارے میں ایک حدیث           ایک حدیث میں جس کے راوی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہیں حضور اقدسﷺنے مکہ مکرمہ کے بارےمیں فرمایا:

(( اذا رأیت مکة قد بعجت کظائم و ساوٰی بنائھا رؤوس الجبال فاعلم أن الأمر قد أظلک))  

"جب  مکہ مکرمہ کا پیٹ چاک کر دیا جائےگا، اور اس میں نہروں جیسے راستےنکال دئے جائیں گے۔ اور مکہ مکرمہ کی عمارتیں اس کے پہاڑوں سے زیادہ اونچی ہو جائیں گی، جب یہ چیزیں نظر آئیں گی تو سمجھ لو کہ فتنے کا وقت قریب آ گیا"
مکہ مکرمہ کا پیٹ چاک ہونا     آج سے چند سال پہلے تک اس حدیث کا صحیح مطلب لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، لیکن اب سمجھ میں آ گیا۔ یہ حدیث سالہا سال سے حدیث کی کتابوں میں لکھی چلی آرہی ہے، اور اس حدیث کی تشریح کرتے وقت شراحِ حدیث حیران تھےکہ مکہ مکرمہ کا پیٹ کس طرح چاک ہوگا، اور نہروں جیسے راستے بننےکا کیا مطلب ہے؛ کیونکہ اس کا کرنا مشکل تھا، لیکن آج کے مکہ مکرمہ کو دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضور اقدس ﷺنے آج کے مکہ کرمہ کو دیکھکر یہ باتیں ارشاد فرمائی تھیں۔ آج مکہ مکرمہ کو چاک کرکے اس میں بےشمار سرنگیں نکال دی گئی ہیں۔ آج سے قبل شراحِ حدیث فرماتےتھےکہ اِس وقت تو مکہ مکرمہ کا علاقہ خشک اور سنگلاخ پہاڑی والا علاقہ ہے؛لیکن آئندہ کسی زمانے میں اللہ تعالیٰ اس میں نہریں اور ندیاں جاری فرما دیں گے۔ لیکن آج ان سرنگوں کو دیکھ کر یہ نظرآرہا ہے کہ کس طرح مکہ مکرمہ کا پیٹ چاک کر دیا گیا ۔
عمارتوں کا پہاڑوں سے بلند ہونا           دوسرا جملہ آپﷺنے یہ فرمایا کہ جب اس کی عمارتیں پہاڑوں سے بھی بلند ہو جائیں گی۔ آج سے چند سال پہلےتک کسی کے تصور میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ مکہ مکرمہ میں پہاڑوں سے بھی  زیادہ بلند عمارتیں بن جائیں گی؛ کیونکہ سارا مکہ پہاڑوں کے درمیان گھرا ہوا ہے، مگر اج مکہ مکرمہ میں جاکر دیکھ لیں کہ کس طرح پہاڑوں سے بلند عمارتیں بنی ہوئی ہیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے چودہ سو سال قبل آج کےحالات گویا اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بیان فرمائےتھے، اللہ تعالیٰ کی عطا  فرمودہ وحی اورعلم کے ذریعے یہ ساری باتیں روزِ روشن کی طرح آشکارہ کر دہ گئی تھیں، آپﷺ نے ایک ایک چیز کھول کھول کر بیان فرمادی کہ آئندہ زمانےمیں کیا ہونے والا ہے۔ اور اپﷺنے یہ بتایا کہ اُس زمانے میں مسلمانوں کو کیا کیا  مشکلات اور فتنے پیش آنےوالےہیں، اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ اُس وقت میں مسلمان کو کیا راہِ عمل اختیار کرنا چاہیے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالی ہر ایک مسلمان کو سچا اور شریعت کا عامل مسلمان بنائے اور تمام طرح کے فتنوں سے ہماری حفاظت فرمائے! (آمین)

0 comments:

Post a Comment