Registration Open (2019-20) Alim Course Alimah Course Nazrah Qur'an Course Hifze Qur'an CourseTafseerul Qur'an CourseArabic Learning Course

Latest Posts

Difference Between Woman and Man's Honor

عورت اور مرد کی عزت کا فرق

ہماری بہنوں اور بیٹیوں کو آج کل ایک نیا سبق پڑھایا جا رہا ہے۔ اس سبق کے ذریعے ان میں یہ سوچ پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ "عزت" کو ان سے منسوب کرکے دراصل ان کے لئے ایک بیڑی بنا دیا گیا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ لڑکا منہ کالا کرلے تو اس سے خاندان کی عزت کو فرق نہیں پڑتا لیکن لڑکی اگر کسی کو مسکرا کر بھی دیکھ لے تو خاندان کی عزت داؤ پر لگ جاتی ہے۔ پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ انہیں فریب دینے والوں کی واردات دیکھئے کہ اس بکواس کے ذریعے ہماری بچیوں کو کوئی حق نہیں دلایا جا رہا بلکہ مرد سے عزت کی نیلامی میں ہمسری کروائی جانی مقصود ہے۔ کہ اگر مرد منہ کالا کرتا ہے اور اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تو خاتون کو بھی منہ کالا کرنے کی آزادی دی جائے اور ایسا ہونے پر عزت کی رٹ نہ لگائی جائے۔ یعنی اگر مرد بے غیرت ہے تو عورت کو بھی بے غیرت ہونا چاہئے اور یہ فریب انہیں دے وہی مرد رہا ہے جو روز ان کے شکار کے لئے گھر سے نکلتا ہے۔ لبرل مرد !

چلئے میں سمجھاتا ہوں کہ خاندان کی عزت عورت سے ہی کیوں داؤ پر لگتی ہے اور مجھے یقین ہے کہ اگر ہماری بچیوں کو یہ بات سمجھ آگئی تو وہ اپنے رب کے آگے سجدہ شکر بجا لائیں گی۔ سب سے بنیادی اور کلیدی فرق مرد اور عورت کی عزت کی "نوعیت" کا ہے۔ مرد بالغ ہوتے ہی عزت سے سرفراز نہیں ہوتا، بلوغ بھی چھوڑیئے وہ بیس سال کا ہو کر بھی "عزت دار" نہیں ہوتا، آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ فلاں نوجوان کی بڑی عزت ہے۔ ہر مرد بیس سے پچیس سال کی عمر میں جا کر اپنے لئے عزت کمانی شروع کرتا ہے اور پچیس سے تیس سال تک عملی زندگی کے رگڑے کھانے کے بعد پہلی بار اس میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ میں نے تھوڑی سی عزت "کمالی ہے" اس عزت کے لئے اس نے پچیس تیس سال کے دوران درجنوں لوگوں کی سینکڑوں بار بک بک سہی ہوتی ہے۔ سینئرز نے اسے بات بے بات کھری کھری سنائی ہوتی ہیں۔ کبھی وہ معطل کیا گیا ہوتا ہے تو کبھی برطرفی کے عذاب سے گزرا ہوتا ہے۔ دفتری سازشوں کا مقابلہ کرتے کرتے وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوچکا ہوتا ہے۔ اور اس پوری جد وجہد کے بعد کمائی گئی عزت کی اوقات یہ ہوتی ہے کہ آپ کوئی ایک شریف مرد بھی ایسا نہیں دکھا سکتے جس کی عزت "متنازع" نہ ہو۔ ہر شریف مرد کو اگر دس لوگ عزت دار سمجھتے ہونگے تو دس ایسے بھی ہونگے جو اس کی عزت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ مولانا طارق جمیل یا ڈاکٹر عبد القدیر خان سے زیادہ شریف آدمی کہاں سے لا کر دکھاؤں ؟ انصاف سے بتایئے ان پر تبرا کرنے والے موجود ہیں کہ نہیں ؟

اس کے برخلاف عورت جیسے ہی بالغ ہوتی ہے تو آٹومیٹک طور پر عزت سے سرفراز ہو جاتی ہے۔ اور یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہیں جو اسے یہ تحفہ خاص عطاء کرتے ہیں۔ عورت پروفیشنل لائف میں کتنے ہی کارنامے کیوں نہ کرلے اس کی عزت "کمائی" نہیں بنتی بلکہ عطیہ الہی ہی رہتی ہے۔ آپ نے کسی کو بھی یہ کہتے نہ سنا ہوگا کہ فلاں عورت نے ماشاءاللہ بڑی عزت کمائی ہے۔ اس کی پروفیشنل خدمات اس کا معاشرے میں مقام متعین کرتی ہیں عزت تو اس کو من جانب اللہ ہی میسر ہے۔ اور اس عزت کا وزن دیکھئے کہ اگر ستر سال کے بڑے میاں کسی 20سال کے لڑکے کو پکارتے ہوئے کہدیں "اے لڑکے !" تو کوئی حیران نہیں ہوتا بلکہ وہ لڑکا دوڑتا ہوا "جی انکل !" کہتا قریب آجائے گا لیکن یہی بڑے میاں کسی 20 برس کی لڑکی کو "اے لڑکی !" کہہ کر پکار دیں تو لوگ بڑے میاں کو گھورنا شروع کردیں گے کیونکہ بچیوں کا احترام بڑوں پر بھی لازم ہے۔ ایک اہم ترین چیز یہ بھی قابل غور ہے کہ ہم سب "خواتین کی عزت" تو سنتے ہیں لیکن کیا کسی نے "مردوں کی عزت" بھی کبھی سنا ؟ فرق یہ ہے کہ خواتین کو عزت ان کی "ذات" کی بنیاد پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بلاتفریق دے رکھی ہے جبکہ مرد کو ذات کی بنیاد پر کوئی عزت میسر نہیں، اسے اگر عزت چاہئے تو وہ اسے اپنی محنت سے کمانی پڑے گی اور اگر یہ نہیں کر سکتا تو ایک کمتر درجے کی عزت اسے یہ مل جائے گی کہ چھوٹوں کو تہذیب میں رکھنے کے لئے بڑوں کی عزت کے درس کے سبب اسے بڑا ہونے کی عزت ملتی رہے گی۔


عورت کے سوا ذات کی بنیاد پر عزت صرف دو ہستیوں کی ہے جن میں سے پہلی ہستی خود اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہیں اور دوسری انبیاء علیھم السلام۔ اور یہ ذات کی بنیاد پر من جانب اللہ ملنے والی عزت کا ہی کرشمہ ہے کہ جب عورت اس عزت کی ناقدری کر دیتی ہے اور اس کے نتیجے میں یہ عزت خدا نخواستہ چھن جائے تو یہ واقعہ "سانحہ" بن جاتا ہے، وہ سانحہ جو پورے خاندان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ ہماری بچیوں کو یہ راز سمجھنا ہوگا کہ ان کی عزت وہ عزت ہے ہی نہیں جو مرد کے پاس ہوتی ہے۔ مرد کی عزت فقط ایک "کمائی" ہے جبکہ عورت کی عزت وہ تحفہ خداوندی ہے جو مسلمان عورت کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آنحضرت کے دست مبارک سے عطاء کر رکھا ہے۔ آپ تاریخ تو اٹھا کر دیکھیں ابھی دو چار سو سال قبل تک مغربی عورت کے انسان ہونے پر بھی اہل مغرب میں اختلاف تھا اس کا عزت دار ہونا تو دور کی بات ہے۔ کبھی بڑے بڑے نامور فلسفیوں کے خواتین کے متعلق اقوال نکال کر پڑھیں آپ کے کان گرم ہو جائیں گے۔ چونکہ مرد کی عزت ایک "کمائی" ہے اس لئے اس کے ضائع ہونے پر دوبارہ کمائے جا سکنے کی آپشن موجود ہے لیکن عورت کی عزت تحفہ خدا وندی ہے اس لئے ناقدری پر اگر یہ ایک بار چلی جائے تو بس پھر ہمیشہ کے لئے چلی جاتی ہے لھذا ہماری بچیوں کو اس تحفے کی خصوصی دیکھ بھال کرنی ہوگی اور بہت احتیاط کرنی ہوگی۔ آپ کی عزت کمائی نہیں انمول ہے اور یہ اس کے انمول ہونے کی ہی دلیل ہے کہ ہر شریف عورت کی عزت "غیر متنازع" ہے۔ آپ ایسی شریف عورت نہیں دکھا سکتے جس کی عزت کے دس افراد قائل ہوں اور دس انکاری ہوں۔ جوں ہی کوئی ایک انسان بھی کسی شریف عورت کی عزت پر انگلی اٹھاتا ہے معاشرہ اس پر سخت ردعمل دیتا ہے اور یہ ردعمل خدائی نظام ہے جو اس نے اپنے دیئے ہوئے تحفے کی حفاظت کے لئے قائم فرما رکھا ہے !

Khud Ko Deendar Bnana Kafi Nhi

صرف خود کو دین دار بنا لینا کافی نہیں ہے
ہم اپنی دنیا میں مگن ہیں، اور ہم میں جو دین دار ہیں وہ دین پر شاداں و فرحاں  ہیں کہ اللہ نے ہمیں دین دار بنایا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہے: " اے ایمان والو! اگر تم راہ یاب ہو گئے تو جو کھڈے میں گرے، گرے تمہارا کیا بگڑتا ہے"

مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں" لوگ اس آیت کو غلط سمجھتے ہیں، لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم دین دار ہو گئے تو ہماری دینا و آخرت کامیاب ہو گئی۔ حالانکہ خدا کی قسم! میں نے حضورﷺکو فرماتے ہوئے سنا کہ اگر تم ظالم کا ہاتھ نہیں پکڑوگےتو اللہ تعالیٰ عذاب میں سب کو شامل کر لیں گے"۔ اس لئے علماء کرام فرماتے ہیں کہ مذکورہ آیت کا نمبر دین کی صحیح تبلیغ کے بعد ہے، یعنی آدمی اپنی ذمےداری پوری کر لے، تبلیغ کا حق ادا کر دے پھر کوئی نہ مانے تو اب ہماری ذمےداری نہیں ہےکہ زبردستی اس کو دین پر لےآئیں، لیکن اگر ہم دین پر  ہیں اور اس پر خوش ہیں، مگر بے دینوں اور بد دینوں  کی ہمیں کوئی فکر نہیں تو ہم عذاب سے نہیں بچ سکتے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں "اے ایمان والو! خود کو اور اپنے گھر والوں کوجہنم سے بچاؤ"۔ خود دین پر عمل کرکے اور بیوی بچوں کو بے عمل چھوڑ کر دنیا و آخرت میں کامیابی نہیں مل سکتی، دنیا میں بھی اس کا وبال بھگتنا پڑےگا   اور آخرت میں بھی بیوی بچوں کے سلسلے میں مؤاخذہ ہوگا۔

آپ کو ایسے مسلمان ہر جگہ ملیں گےجو دین سےدور ہیں، ان کو دین کےبارےمیں کچھ معلوم نہیں؛ کیونکہ  کوئی  دین کی بات بتانے والا ان تک پہنچا  ہی نہیں، صورتِ حال سینکڑوں سال سےبگڑتی چلی آ رہی ہے، آج ستر فیصد سے زائد مسلمان دین سے بےخبر ہیں۔ ان کی ذمےداری کن پر ہے؟ ہم پرہے! اگر ہم نےدین انہیں پہنچایا پھر بھی وہ دین کی طرف نہ آئیں تو اب ہماری ذمےداری نہیں۔

غرض: حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نےفرمایا کہ لوگ اس آیت کو غلط سمجھتے ہیں کہ ہم دین پر آ گئے، اب دوسرےجو چاہےکریں ہمارا کچھ نہیں بگڑتا، یہ مطلب نہیں۔ اگر اپنی ذمےداری پوری نہ کی تو مؤاخذہ    ہوگا، ہاں اپنی پوری کوشش کی اور لوگ پھر بھی دین پر نہ آئے تواب ذمےداری نہیں۔